https://sozposts.blogspot.con/google44d1ca22d1dc9736.html -->

افغانستان کے قندوز میں کیا ہوا؟ کون اسکا ذمہ دار ہے؟

advertise here
یہ تصویریں
کچھ بول رہی ہیں  ............. !!!

................ شکیل احمد سبحانی 
ایڈ لگانے کی جگہ

افغانستان کے قندوز میں کیا ہوا ........ ؟
کیوں ہوا ......... ؟
اور
کون اس کا ذمہ دار ہے ...... ؟
اس طرح کے سارے سوالات کے جوابات ان تصویروں میں موجود ہیں .....
لیکن
اسے سمجھنے کے لیے
انصاف کی وہ نظر چاہیے
جہاں مجرم کو صرف مجرم مانا جاسکے ........
اگر دین، مذہب، مسلک، رشتہ داری اور قرابت داری کی عینک آنکھوں پر لگا کر مجرموں کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر وہ  کبھی نہیں مل سکیں گے ......... !!!
بد قسمتی سے اس دور میں یہی سب کچھ ہورہا ہے  ........
یہی وجہ ہے کہ
آل سعود اور وہابیت کے بڑھتے قدم رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ........!!!
.............................................
آئیے
حقائق کی روشنی میں اب
ان تصویروں کا جائزہ لیتے ہیں  .......... !!!
ایک تصویر تو اس کمسن حافظ قرآن کی ہے ...........
جو دستار حفظ قرآن پانے کے بعد خوشیوں سے مسرور ہے......  ،
اور
دوسری تصویر امریکی بمباری سے اسے ملنے والی اس موت کی ہے ....
جس نے اس بچے کو کفن پہننے پر مجبور کردیا  .........
بموں کی برسات میں وہ اکیلا دنیا سے نہیں اٹھا ،
بلکہ اس کے ساتھ
100 سے زائد حفاظ اور علماء بھی اس بمباری میں موت کی آغوش میں چلے گئے .............!!!

تیسری تصویر
سروں پر دستار حفظ سجائے
گلوں میں پھولوں کے ہار پہنے
ان افغانی بچوں کی ہے جو مرنے والوں میں شامل تھے .......
اور اس تصویر کے ساتھ ہی یہ سوال بھی درج ہے کہ
ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی ہے............ ؟

چوتھی تصویر میں
ایک شیعہ عالم
کا رد عمل موجود ہے .....
جسے پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس شیعہ مولوی کو یہ سب دیکھ کر خوشی اس لیے حاصل ہوئی کہ اس بمباری میں جو بچے ہلاک ہوئے وہ طالبان والوں کے تھے .........
حالانکہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کچھ لوگ تمہارے بچوں کو مار ڈالیں تو تم بھی ان کے بچوں کو مار ڈالو  ......
یا ان کے بچوں کے مرنے پر خوشیوں  کا اظہار کرو  ......
خیر یہ اک الگ بحث ہے ،
یہاں اس کا ذکر صرف اس لیے کیا گیا کہ
یہ بتایا جا سکے کہ افغانستان کے قندوز میں جس مدرسے کے دستار بندی کے جلسے پر امریکہ نے بمباری کی تھی، وہ طالبان کا مدرسہ تھا .............
.............................................

سوال  : طالبان کون ہیں ....... ؟
جواب :  وہابی ہیں
سوال : کیسے معلوم ہوا ؟
جواب :  دنیا جانتی ہے کہ وہ لوگ ابن عبدالوہاب نجدی سے عقیدت رکھتے ہیں اور اس کی ہی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر افغانستان  اور پاکستان میں صحابہ ء کرام اور اولیاء اللہ کے مزارات پر طالبان نے بم دھماکے کیے .........
جس میں ہزاروں سنی مسلمان شہید ہوئے .....
اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں طالبان پیش پیش رہے  ........
یہاں اس سوال کا جواب بھی ہوگیا جو قندوز بمباری میں مرنے والے بچوں کی تصویر کے ساتھ پوچھا گیا ہے کہ
ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی ......... ؟
ان کا جرم یہی تھا کہ وہ طالبان نامی وہابی فرقے کی ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے، جس پر بدترین دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات تھے .......
اور یہ صرف الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ طالبان نے ماضی میں اسلام اور توحید کا پرچم اٹھا کر جو قتل و غارت کی تھی وہ اسلامی جہاد نہیں بلکہ دہشت گردی تھی .........

سوال : طالبان کس کی مدد سے منظر عام پر آئے  ....... ؟
جواب : امریکہ
سوال : کس مقصد کے لیے انہیں امریکہ نے کھڑا کیا تھا  ؟
جواب  : روسی فوجیوں سے لڑنے کے لیے  .........
سوال  : امریکہ نے طالبان کو مضبوط کرنے کا ٹھیکہ کس ملک کو دیا تھا  ........ ؟
جواب : سعودی عرب کو  .....
سوال : کوئی ٹھوس ثبوت  ....  ؟
جواب : بن سلمان آل سعود کا وہ  بیان پوری دنیا تک پہنچ چکا، جس میں اس نے ابھی چند دنوں قبل یہ اعتراف کیا  کہ امریکہ کے کہنے پر وہابیت کے فروغ اور روس کے غلبے سے افغانستان کو چھڑانے کے لیے سعودی حکومت نے وہابی مدرسوں مسجدوں، اور تنظیموں کو بھرپور مالی امداد دی
معلوم ہوا کہ سعودی عرب نے افغانستان کے لوگوں کی مدد اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنے کے لیے نہیں کی تھی بلکہ امریکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے کی تھی ......
اور اس کا مقصد کوئی اسلامی جدوجہد نہیں تھی بلکہ روس کے خلاف لڑنا تھا،  اسی کام کے لیے طالبان کو پیدا کیا گیا تھا ..... لیکن اس سیاسی کھیل کو وہابی فرقہ نے اسلامی جہاد کا نام دے کر افغانستان، پاکستان اور دنیا بھر کے وہابیوں کو گمراہ کیا ...........
سوال : طالبان کو طاقت دینے کے لیے امریکہ نے اور کون سے ملک کی مدد لی تھی ؟
جواب : پاکستان 
سوال : کوئی پختہ ثبوت؟
جواب  : پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کا وہ اقراری بیان جو ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے دیا تھا اور کہا تھا کہ ایک دور میں طالبان تو ہمارے ہیرو تھے ،
ہم ان پر فخر اور اعتماد کیا کرتے تھے ........... ،
واضح رہے کہ یہی پرویز مشرف تھے جنہوں نے طالبان کو امریکہ اور سعودی عرب کے کہنے پر پہلے خوب دودھ بھی پلایا تھا اور پھر امریکہ کا ہی حکم پاکر اپنے اقتدار کے آخری دور میں طالبان کے وہابی مدرسوں پر جنگی طیاروں سے بمباریاں بھی کروائی تھیں، جس میں سیکڑوں وہابی علماء اور طلباء ہلاک بھی ہوئے تھے ......
یہی پرویز مشرف تھے جنہوں نے اسلام آباد کی لال مسجد کا فوجی آپریشن کرکے دنیا کے سامنے اس مسجد میں رکھے ہوئے بم بارود، میزائل اور خطرناک ہتھیاروں کی نمائش بھی کی تھی ، اور کئی دنوں تک چلنے والے اس فوجی آپریشن کے لائیو مناظر کے ذریعے لوگوں نے پاکستان کے مشہور دیوبندی عالم عبدالعزیز کو برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار ہوتے اور اس کے بھائی کو پاکستانی فوج کی گولیوں سے مرتے ہوئے دیکھا تھا  .......
قندوز جیسے ہی مناظر اس وقت پاکستان کے شہروں میں بھی تھے بس فرق صرف اتنا تھا کہ قندوز میں جلسہ ء دستار ہو رہا تھا  اور پاکستان کے طالبانی، دیوبندی اور وہابی مدرسوں میں جلسہ ء دستار کے لیے تیاریاں چل رہی تھی .......
پاکستان کے طالبانی اور دیوبندی مدرسوں پر بمباری کے بعد پاکستانی صدر پرویز مشرف نے اس اقدام پر وہابی فرقہ کے لوگوں کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ جن مدرسوں پر پاکستانی فوج نے فضائی حملے کیے وہ دہشت گردی کے ایسے مراکز تھے، جہاں جہاد کے نام پر طلباء کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی تھی .........!!!
افغانستان کے قندوز میں طالبان کے مدرسے پر حالیہ بمباری کے بعد امریکہ بھی یہی جواز پیش کرے گا .................!!!
.............................................

جتنی باتیں یہاں لکھی گئی ہیں وہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بار بار عوام تک پہنچتی رہی ہیں ......
لیکن اس کے باوجود میں نے آج تک کوئی ایسی خبر نہ تو سنی، نہ ہی کہیں پڑھی کہ اسلام کو نقصان پہنچانے والی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے کسی نے وہابی فرقہ سے کنارہ کشی اختیار کی ہو  ....... !!!
جب کہ اسلام سے سچی محبت کا تقاضہ تو یہی تھا کہ جو طبقہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے اس قدر نقصانات پہنچا رہا ہو ، اس سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا جائے، اس سے دوری اختیار کی جائے ، اس کے خلاف آواز بلند کی جائے...... اس کے مکر وفریب سے مسلمانوں کو بچانے کی کوشش کی جائے ......
افغانستان کے قندوز نامی شہر کے مدرسے کی دستار بندی کی تقریب میں ہونے والی امریکی بمباری پر آنسو بہانے والوں کو اس کی وجوہات پر بھی غور کرنا چاہیے ........ !!!
دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امریکہ اور سعودی عرب کے زیر سایہ پرورش پانے والی وہابی اور طالبانی دہشت گردی کی مذمت اور مخالفت کرنے کی سب سے زیادہ قیمت سنی مسلمانوں کو چکانا پڑی ،
پاکستان کے نامور علمائے اہل سنت کو اسی وجہ سے قتل کر دیا گیا، بزور طاقت سنی مساجد پر قبضہ کیا گیا ،
کراچی کے نشتر پارک میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جشن میں بم دھماکوں میں اہل سنت وجماعت کے صف اول کے علماء کو نشانہ بنایا گیا ، وہابیوں کے اس دہشت گردانہ خود کش حملوں میں 100 سے زائد سنی علماء اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا گیا ...... 
مزارات اولیا ء پر درجنوں دہشت گردانہ حملوں میں بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں زائرین کو مار دیا گیا  .........
وہابی دہشت گردی کا اتنا شکار ہونے کے بعد بھی دنیا بھر کے سنی علماء اور سنی مسلمان اگر قندوز کے ایک طالبانی مدرسے پر ہونے والی بمباری کی مذمت کر رہے ہیں، تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتی کہ اہل سنت وجماعت سے وابستہ علماء اور سنی مسلمان حق گو اور انصاف پسند واقع ہوئے ہیں .......
فرقہ وارانہ عصبیت ان کے دلوں میں نہیں  ........
وہ ظلم کو ظلم ہی کہتے رہے ..... دہشت گردی کو دہشت گردی ہی مانتے رہے ......
پھر چاہے وہ طالبان کی  دہشت گردی ہو  .......
یا امریکہ اور سعودی عرب کی دہشت گردی ہو  !!!
سنیوں نے ہمیشہ اس کی مذمت اور مخالفت میں آواز بلند کی ،
اور دنیا کو پیغام دیا کہ
ظالم کی مذمت ہی انسانیت کا تقاضہ ہے ......
یہی اسلام کی تعلیم ہے .....

.............................................
7/4/2018
Click For Comments ()