تلماتی دھوپ میں سہارا کی تلاش
ایڈ لگانے کی جگہ
عنوان گفتگو سے ایسا لگ رہا ہے کہ میں کوئی افسانہ نگاری کرنے جارہا یوں
لیکن
ایسا نہیں ہے
اصل میں معاملہ کچھ اور ہے اس وقت ملک میں کچھ ٹھیک بھی ہے اور زیادہ خراب
کانگریس کی زبردست واپسی سے بی جی پی پریشان ہے جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے رافیل پر زوردار سوالات کئے جاریے تھے ہر جگہ ہنگامہ تھا پھر یہ آر ایس ایس والوں نے کچھ تیاری کی پھر کچھ ریاستوں کا سودا کیا گیا کیونکہ یہ تو متیقن ہے کہ اب ہندوستان میں کوئی بھی پارٹی بغیر آر ایس ایس کی حمایت و تائید کے بغیر فاتح نہیں ہوسکتی خیر یہ تو رہی گرم سرگرم حالت
لیکن اس سے تشویشناک حالت ہمارے مدارس کی سیاست ہے جب کہ یہی ہماری آخری امید ہے
اساتذہ کی حالت نم ناک ہوچکی ہے
کچھ احباب نے فرمایا کہ مدرسے اب قابل تدریس کم اور سیاسی زیادہ ہوگئے ہیں
یہ کیا بی جی پی یا کانگریس والے سیاست کر پائینگے جو اب ہمارے تعلیمی ادارے میں شروع ہے
کسی کی علمی قابلیت سے کوئی پریشان کسی کی دعا و تعویذ سے کوئی پریشان
فلاں آیا اور بہت کم دن میں جلوہ بنادیا بس اب تو اس کی خیر نہیں
بس شروع کردو ان کی خفیہ معاملات پر اپنی ناپاک عزائم غیبت و چغلخوری اور تلمقگیری کی ایجنسی لگا دو
خدا را رحم کن
بر حال حزیں
اصلاح احوال پہ اگر کچھ کیا گیا اور یہ کہا گیا تو پھر تو خیر نہیں
ارے بھائی بہت بولتے ہیں دیکھو آج آئے ہیں لگتا ہے سب کچھ خود ہیں
اچھا رکو بتاتے ہیں
بے چارے نوخیز علما جن کے اندر کچھ کرگزرنے کی صلاحیت ہے وہ بھی ان ناسوری حالات سے دوچار ہوکر اپنی سرگرمی ماند کردیتے ہیں
کیوں
بھائی یہاں تو ایسا ہی چلتا ہے اگر زیادہ کچھ کرنے کی کوشش کئے تو رخصت سفر قبول ہے
ایک صاحب نے بتانے لگے دیکھئے ناظم اعلی صاحب نے تدریس کے علاوہ ایسی بہت ساری ذمہ داریاں سپرد کردی ہیں وہ کیسے ہوگا مطالعہ کا وقت نہیں
اللہ رحم فرمائے ہمارے ان نظمائے مدارس پہ بھائی آپ سوچو ہم مظلوم ہیں لیکن مجبور نہیں یہ الگ بات ہے کہ آپ نے مجھے غلام بنانے میں کوئی کمی فروگذاشت نہیں کی ہے
خیر
اللہ فضل فرمائے
قمر اخلاقی امجدی
خانقاہ قادریہ تیغیہ اخلاقیہ