کیا قربانی کے چمڑے کا پیسہ ضروریات مسجد میں لگانا جاٸز ہے؟
ایڈ لگانے کی جگہ
سوال:- کیا قربانی کا چمڑا بیچ کر اس کی قیمت مسجد کے کام میں لئےسکتے ہےیاامام کے تنخواہ میں دے سکتے کی نہیں زید کہتا ہے درست ہے دے لئے بکر کہتا ہے درست نہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے عین مہربانی ہو گی
سائل منور علی حشمتی
✒الجواب بعون الملک الوہاب :
صورت مستفسرہ میں زید کا کہنا شرعاً درست ہے کیونکہ ایسے ہی مسئلہ کے جواب میں فقیہ ملت علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے :
چرم قربانی مسجد کے کاموں میں لگا سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صدر الشریعہ رحمۃ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں قربانی کا چمڑا اپنے کاموں میں بھی لا سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کسی نیک کام میں دے دے مثلاً مسجد یا دینی مدرسہ کو دے دے یا کسی فقیر کو دیدے -
[📚بہار شریعت ج سوم ،حصہ ١٥ ،صفحہ ١٥١]
البتہ اگر چمڑے کو اپنے خرچ میں لانے کی نیت سے بیچا تو اب اس کی قیمت مسجد میں دینا جائز نہیں -
[📚 فتاویٰ فیض الرسول ،ج دوم، صفحہ ٤٧٢]
لہٰذا ثابت ہو گیا کہ چرم قربانی کی قیمت مسجد کے تمام کاموں میں استعمال کر سکتے ہیں چاہے مصلہ، لوٹا ہو چاہے امام کی تنخواہ ہو کیونکہ امام کی تنخواہ بھی مسجد کے خرچوں میں سے ایک خرچ ہے چنانچہ امام کی تنخواہ میں بھی اس پیسے کو لگانا شرعًا جائز و درست باعث اجر و ثواب ہے جیسا کہ فقیہ ملت علیہ الرحمہ نے مدرس کو بطور تنخواہ چرم قربانی کی رقم دینے کا حکم دیا ہے :
قربانی کی کھالیں چھوٹے چھوٹے مکاتب والے بھی جمع کرنے کے بعد جہاں چاہیں خرچ کریں جائز ہے چاہے مدرسین کی تنخواہ میں دیں یا مدرسہ بنائیں کہ چرم قربانی کا صدقہ کرنا افضل ہے واجب نہیں اور جس چیز کا صدقہ کرنا واجب نہیں اس میں تملیک فقیر ضروری نہیں
📚فتاویٰ فیض الرسول ،جلد دوم، صفحہ ٤٧٧
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
✍🏻کـــتــبــہ
حضرت علامہ و مولانا محمد امتیاز حسین قادری صاحب قبلہ مدظلہ النورانی، لکھنؤ یوپی،
مورخہ
23/8/2018
<+> ھ ١١/١٢/١٤٣٩
( قادری فقہی گروپ )
9267478373
المشتہر: محبوب رضا صمدانی پٹنہ، بھار